Friday 11 November 2011

حضرت حجربن عدی (رض) اور دیگر صحابہ کا لرزہ خیز قتل ِعام


حضرت حجربن عدی (رض) اور دیگر صحابہ کا لرزہ خیز قتل ِعام




اس باب میں ہم ان صحابہ اور بےگناہ شیعہ مومنین و مومنات کے وحشیانہ و سفاکانہ قتل کا ذکر کرینگے جو معاویہ کی جلادی و درندگی کی بھینٹ صرف اس وجہ سے چڑھ گئے کہ یہ سب علی بن ابی طالب (ع) سے صرف قولاً نہیں بلکہ فعلا ً بھی محبت کرتے تھے اور منافقت کا رویہ اختیار کرنے پر راضی نہ تھے۔

صحابی ِرسول (ص) حضرت حجربن عدی (رض) کا تعارف


آج کل دیکھنے میں آرہا ہے کہ بعض نجس نواصب جو عام طور پر تو صحابہ صحابہ کی رٹ لگائے رہتے ہیں لیکن جب ان صحابہ کی بات آتی ہے جو علی بن ابی طالب (ع) سے محبت اور ان کے دشمنوں پر تبرا کرتے تھے، تو یہ نواصب ایسے صحابہ کو صحابہ ماننے سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی کچھ کوشش حضرت حجر بن عدی الادبر الکندی (رض) کے متعلق بھی کی گئی ہے اور چند نواصب نے انہیں صحابہ کے بجائے تابعین میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے بےغیرت و بے شرم نواصب کے لئے ہم ان کی کتابوں سے ہی حوالہ جات کی بوچھاڑ کرینگے اور ان کی زبانیں اس سلسلے میں انشاللہ ہمیشہ کے لئے بند کردینگے۔

امام ِاہل ِسنت ابن عبدالبر نے صحابہ کے متعلق لکھی گئی کتاب الاستیعاب فی تمیز الاصحاب، ج 1 ص 97 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کو بھی شامل کیا ہے اور ان کے متعلق لکھا ہے:

كان حجر من فضلاء الصحابة
حجر فاضل صحابہ میں سے ایک تھے


امام ِاہل ِسنت ابن اثیر جزری نے صحابہ کی زندگیوں پرلکھی گئی کتاب اسد الغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 244 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کو بھی شامل کیا ہے اور ان کے متعلق لکھا ہے:

كان من فضلاء الصحابة

وہ فاضل صحابہ میں سے ایک تھے


امام حاکم اپنی حدیث کی مشہور کتاب المستدراک، ج 3 ص 468 میں لکھتے ہیں:

ذكر مناقب حجر بن عدي رضى الله تعالى عنه وهو راهب أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم وذكر مقتله

حجر بن عدی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کے مناقب اور ان کے قتل کا ذکر جو اصحاب ِمحمد (ص) میں سے ہیں


ابن عساکر نے بیان کیا ہے کہ حضرت حجر بن عدی (رض) رسول اللہ (ص) سے ملے اور ابن عساکر کے اسی حوالے پر نواصب کے پسندیدہ امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 55 انحصار کیا ہے:

قال ابن عساكر‏:‏ وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وسمع علياً وعماراً وشراحيل بن مرة، ويقال‏:‏ شرحبيل بن مرة‏.

ابن عساکر کا قول ہےکہ حجر رسول اللہ (ص) کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے علی، عمار، شراجیل بن مرۃ جو کہ اصل میں شجیل ہیں، سے احادیث سنیں۔


امام ِاہلِسنت کمال الدین عمر بن العدیم (متوفی 660 ھ) اپنی کتاب بغیت الطلب فی تاریخ الحلب، ج 2 ص 298 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق لکھتے ہیں:

وكان من أهل الكوفة، وفد على النبي صلى الله عليه وسلم، وحدث عن علي بن أبي طالب

وہ کوفہ کے لوگوں میں سے تھے، وہ رسول اللہ (ص) کے پاس بحیثیت سفیر تشریف لائے اور انہوں نے علی بن ابی طالب سے احادیث سنیں۔


امام ابن قتیبہ (متوفی 276 ھ) اپنی مشہور کتاب المعارف، ص 76 میں ضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق لکھتے ہیں:

وفد إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأسلم وشهد القادسية وشهد الجمل وصفين مع علي، فقتله معاوية بمرج غدراء مع عدة

وہ رسول اللہ (ص) کے پاس بحیثیت سفیر تشریف لائے اور السلا م قبول کرلیا، انہوں نے قادسیہ کی جنگ میں حصہ لیا پھر انہوں نے علی کے ہمراہ جنگ جمل اور صفین میں حصہ لیا پھر معاویہ نے انہیں ان کے ساتھیوں سمیت عذراء میں قتل کردیا۔


اے رسول اللہ (ص) کے نیک صحابی، تمام شیعوں کی جانیں آپ پر قربان، آپ کے قاتل پر اللہ کی لعنت!

صحابہ کے کرامات کا ذکر کرتے ہوئے علام حبت اللہ للکائی الشافعی (متوفی 418 ھ) اپنی کتاب شرح اصول اعتقاد اہل سنہ، ج 17 ص 18 لکھتے ہیں:

ما روي من كرامات حجر بن عدي أو قيس بن مكشوح في جماعة أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم

ہم نے رسول اللہ (ص) کے صحابہ میں سے حجر بن عدی اور قیس بن مکشوح کے کرامات بیان کیئے ہیں۔


اور اگر، اب بھی کوئی شک و شبہ باقی رہ گیا ہو تو اہل ِسنت میں علم الرجال میں امیر المومنین تسلیم کئے جانے والے امام زھبی کے الفاظ بیان کئے دیتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 463 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق بیان کیئے ہیں:

وہ صحابی اور سفیر تھے


حضرت حجربن عدی (رض) کے قاتلوں پر اللہ کا غضب


ملا متقی ھندی نے اپنے احادیث کے کثیر مجموعہ کی کتاب کنزالعمال، ج 13 ص 531 حدیث 36530 جبکہ امام بھقی نے دلائل النبوہ، ج 6 ص 456 میں نقل کیا ہے:

حضرت علی نے کہا کہ اے اہل ِکوفہ، تم میں سے سات بہترین لوگ قتل کردیئے جایئنگے جن کی مثل اصحاب الخدور کی سی ہے۔ حجربن الادبر اور ان کے ساتھی بھی انہی لوگوں میں سے ہیں اور جو کہ اہل ِکوفہ میں سے ہیں، معاویہ نے ان لوگوں کو دمشق کے مضافاتی علاقے عذراء میں قتل کردیا تھا۔

کنزالعمال، ج 13 ص 556 حدیث 37510 میں ہم پڑھتے ہیں:

ابی الاسود نے کہا کہ معاویہ حضرت عائشہ کے پاس گیا تو حضرت عائشہ نے پوچھا کہ تم نے اہل ِعذراء حجر اور ان کے ساتھیوں کو قیل کیوں کیا؟ معاویہ نے جواب دیا، اے ام المومنین، میں نے دیکھا کہ ان کے موت سے امت کی بھلائی ہورہی تھی اور ان کی زندگی سے امت میں فساد۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے کہ عذراء میں کچھ لوگوں کا قتل ہوگا جس پر اللہ اور اہل ِسماء اس پر غضب ناک ہوجاینگے۔

صحابیِ ِرسول حضرت حجر بن عدی (رض) کے ملعون قاتلوں پر اللہ کا غضب بیشک ہو اور انہیں کروٹ کروٹ اس غضب کا سامنا کرنا پڑے۔

کنزالعمال، ج 13 ص 556 حدیث 37511 میں ہم پڑھتے ہیں:

سعید بن ابی ہلال نے بیان کیا ہے کہ معاویہ حج کے لئے گیا اور حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گیا تو حضرت عائشہ نے اس سے کہا کہ اے معاویہ، تم نے حجر بن الادبر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا۔ اللہ کی قسم کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ عذراء میں قتل کیئے جائینگے جس پر اللہ اور اہل ِسماء غضب ناک ہوجانیئگے۔

کنزالعمال، ج 10 حدیث 30887 میں ہم پڑھتے ہیں:

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ عذراء میں سات لوگوں کا قتل ہوگا اللہ اور اہل ِسماء اس پر غضب ناک ہوجائینگے۔

امام بھقی نے اپنی کتاب دلائل النبوہ میں باب یہ اس عبارت سے باندھا ہے:

باب ما روى في إخباره بقتل نفر من المسلمين ظلما بعذراء من أرض الشام فكان كما أخبر صلى الله عليه وسلم

بعض نواصب اپنے اصل یعنی معاویہ کو صحابی ِرسول جناب حجر بن عدی (رض) کے سفاکانہ قتل کے جرم سے بچانے کی غرض سے ایک کوشش یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ مندرجہ بالا روایات کی صحت پر شکوک و شبہات کریں لیکن ان کے لئے عرض ہے کہ امام بھقی نے ان روایات کو صحیح تسلیم کیا اور یہی وجہ ہے کہ انہی روایات کی بنیاد پر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا:

علي رضي الله عنه لا يقول مثل هذا إلا بأن يكون سمعه من رسول الله

میں کہتا ہوں کہ علی (رض) نے ایسی بات کبھی نہ کہی ہوتی اگر انہوں نے خود رسول اللہ سے یہ نہ سنا ہوتا



حضرت حجربن عدی (رض) کے قتل کا احوال


امام ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب اصابہ فی تمیز الصحابہ، ج 1 ص 313 ترجمہ نمبر 1631 میں رقمطراز ہیں:

وأن حجر بن عدي شهد القادسية وأنه شهد بعد ذلك الجمل وصفين وصحب عليا فكان من شيعته وقتل بمرج عذراء بأمر معاوية

غزوہ قادسیہ کے بعد حجر بن عدی نے علی کے ساتھ ان کے شیعہ کی حیثیت سے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حصہ لیا۔ ان کو معاویہ کے حکم پر عذراء کے مقام پر قتل کردیا گیا۔


اسی طرح اسدالغابہ، ج 1 ص 244 میں ہم پڑھتے ہیں:

فأنزل هو وأصحابه عذراء وهي قرية عند دمشق فأمر معاوية بقتلهم

حضر اور ان کے ساتھیوں کے گرفتار کر کے عذراء کے پاس ایک خندق میں لے جایا گیا جو دمشق کے پاس تھا۔ معاویہ نے حکم دیا کے حجر اور ان کے ساتھیوں کو اس خندق میں قتل کردیا جائے۔


ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 53 میں لکھا ہے:

أن معاوية جعل يفرغر بالموت وهو يقول إن يومى بك يا حجر بن عدى لطويل قالها ثلاثا

جب معاویہ کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے تین مرتبہ اپنے آپ سے کہا کہ اے حجر بن عدی، تیرے قتل کا جواب دینے کا دن بہت ہی طویل ہے


معاویہ نے اپنے باپ کی ناجائز اولاد یعنی زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا اور جیسا کہ پچھلے باب میں گزر چکا ہے، معاویہ کے حکم پر اس کے تمام گورنر منبروں سے علی بن ابی طالب (ع) کو گالیاں دیتے اور لعن طعن کرتے۔ حضرت حجر بن عدی (رض) نہایت باغیرت و باوفاء صحابی اور محب ِاہل ِبیت (ع) تھے جن سے مساجد میں اپنے سامنے علی بن ابی طالب (ع) کی توہین برادشت نہیں ہوتی تھی ۔ نطفہ ِنا تحقیق زیاد نے اس بات کی شکایت معاویہ کو لکھ بھیجی جس نے یہ حکم دیا کہ حضرت حجر بن عدی (رض) اور ان کے ساتھیوں کو اس کے پاس بھیج دیا جائے لیکن راستے میں معاویہ کے حکم پر ان تمام حضرات کو شہید کردیا گیا۔ جیسا کہ آج کے دور کے سلفی عالم ِدین حسن بن فرحان المالکی نے اپنی کتاب 'قراء ۃ فی کتاب العقائد' ص 170 پر اس بات کا اقرار کیا ہے:

إذ لجأ بنو أمية إلى الفتك بمحبي أهل البيت وإذلالهم. فقتلوا حجر بن عدي صبراً في عهد معاوية لأنه أنكر سب علي على المنابر

بنی امیہ نے محبان ِاہل ِبیت کو قتل کیا اور ان کی توہین کی اور حجر بن عدی کو بےدردی سے معاویہ کے دور میں قتل کردیا گیا اس وجہ سے کہ وہ حکمرانوں کی جانب سے منبروں پر سے علی پر لعنت کرنے کے عمل کی مخالفت کرتے تھے۔


اے، باوفاء صحابی ِرسول حجر بن عدی! آپ کی عظمت کو سلام۔ آپ کے جوتوں کی دھول تمام شیعوں کے آنکھ کا سرما بننے کے قابل ہے اور اللہ نے ایک قوم رکھی ہے، جو آپ کے قاتلوں پر آج بھی دنیا بھر میں لعنت برساتی اور آپ جیسے نیک و باوفاء صحابہ ِکرام کی عظمت کو سلام کرتی ہے!


کیا حضرت حجربن عدی (رض) فتنہ انگیز تھے؟


آج کل کے نواصب اپنی جماعت کے بانی راہنماؤں کو بچانے کی کوشش میں یہ بھی کہہ بیٹھتے ہیں کہ حجربن عدی تو فتنہ انگیزی کررہے تھے اسی لئے ان کے باپ دادا معاویہ کو انہیں قتل کردینا پڑا۔ ایسی ہی ایک کوشش نواصب میں مشہور ویب سائٹ نے Ansar.org کی ہے۔


جواب نمبر 1: یہ ایک باوفاء صحابی ِرسول پر بہتان ہے


حضرت حجر بن عدی (رض) کو فتنہ انگیزی کا ارتکاب کرنے کی بات کرنا ان پر سراسر بہتان ہے اور اس بات کا سرے سے کوئی ثبوت ہی موجود نہیں۔ مولانا مودودی نے کتاب خلافت و ملوکیت، ص 164-165 میں پورا احوال یوں پیش کیا ہے:

اس نئی پالیسی کی ابتداء حضرت معاویہ کے زمانہ میں حضرت حُجر بن عدی کے قتل 51 ہجری سے ہوئی جو ایک زاہد و عابد صحابی اور صلحائے امت میں ایک اونچے مرتبے کے شخص تھے۔ حضرت معاویہ کے زمانے میں جب منبروں پر خطبوں میں علانیہ حضرت علیؓ پر لعنت اور سب و شتم کا سلسلہ شروع ہوا تو عام مسلمانوں کے دل ہر جگہ ہی اس سے زخمی ہو رہے تھے مگر لوگ خون کا گھونٹ پی کر خاموش ہو جاتے تھے۔ کوفہ میں حُجر بن عدی سے صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے جواب میں حضرت علیؓ کی تعریف اور حضرت معاویہ کی مذمت شروع کر دی۔ حضرت مغیرہؓ جب تک کوفہ کے گورنر رہے وہ ان کے ساتھ رعایت برتتے رہے۔ ان کے بعد جب زیاد کی گورنری میں بصرہ کے ساتھ کوفہ بھی شامل ہو گیا تو اُس کے اور ان کے درمیان کشمکش برپا ہو گئی۔ وہ خطبے میں حضرت علیؓ کو گالیاں دیتا تھا اور یہ اُٹھ کر اس کا جواب دینے لگتے تھے۔ اسی دوران میں ایک مرتبہ انہوں نے نماز جمعہ میں تاخیر پر بھی اُس کو ٹوکا۔ آخر کار اس نے انہیں اور ان کے بارہ ساتھیوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف بہت سے لوگوں کی شہادتیں اِس فرد جُرم پر لیں کہ ’’انہوں نے ایک جتھا بنا لیا ہے، خلیفہ کو علانیہ گالیاں دیتے ہیں ، امیر المومنین کے خلاف لڑنے کی دعوت دیتے ہیں، ان کا دعوی یہ ہے کہ خلافت آل ابی طالب کے سوا کسی کے لئے درست نہیں ہے ، انہوں نے شہر میں فساد برپا کیا اور امیر المومنین کے عامل کو نکال باہر کیا، یہ ابوتُراب و حضرت علیؓ کی حمایت کرتے ہیں ، اُن پر رحمت بھیجتے ہیں اور اُن کے مخالفین سے اظہارِ برائت کرتے ہیں ۔‘‘ ان گواہیوں میں سے ایک گواہی قاضی شُریح کی بھی ثبت کی گئی ، مگر انہوں نے ایک الگ خط میں حضرت معاویہ کو لکھ بھیجا کہ میں نے سُنا ہے آپ کے پاس حُجر بن عدی کے خلاف جو شہادتیں بھیجی گئی ہیں ان میں ایک میری شہادت بھی ہے۔ میری اصل شہادت حجر کے متعلق یہ ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکواۃ دیتے ہیں ، دائما حج و عمرہ کرتے رہتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے اور بدی سے روکتے ہیں۔ ان کا خون اور مال حرام ہے۔ آپ چاہیں تو انہیں قتل کریں ورنہ معاف کر دیں۔

اِس طرح یہ ملزم حضرت معاویہ کے پاس بھیجے گئے اور انہوں نے ان کے قتل کا حکم دے دیا۔ قتل سے پہلے جلادوں نے ان کے سامنے جو بات پیش کی وہ یہ تھی کہ ’’ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم علیؓ سے برا ئت کا اظہار کرو اور ان پر لعنت بھیجو تو تمہیں چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کردیا جائے۔‘‘ ان لوگوں نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا اور حُجر نے کہا’’ میں زبان سے وہ بات نہیں نکال سکتا جو رب کو ناراض کرے۔‘‘ آخر کار وہ اور ان کے سات ساتھی قتل کر دئیے گئے۔ ان میں سے ایک صاحب عبد الرحمن بن حسان کو حضرت معاویہ نے زیاد کے پاس واپس بھیج دیا اور اس کو لکھا کہ انہیں بدترین طریقہ سے قتل کرو چنانچہ اس نے انہیں زندہ دفن کرادیا۔
(تاریخ طبری، ج 4، صفحہ 190 تا 208۔
الاستیعاب ، ابن عبد البر ، ج 1، صفحہ 135
تاریخ ابن اثیر، ج 3، صفحہ 234 تا 42۔
البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر، ج 8، صفحہ 50 تا 5۔
ابن خلدون، ج 3۳، صفحہ 13)۔

 خلافت و ملوکیت، ص 164-165

جواب نمبر 2: امام حسن بصری کا حجر بن عدی کی ثناء اور ان کے قتل پر معاویہ کی ملامت کرنا


مشہور و معروف تابعی اور سنی فقہ میں امام کی حیثیت رکھنے والے جناب حسن بصری کی حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق رائے اہم سنی کتاب تاریخ ابن وردی، ج 1 ص 255:

زیاد نے علی پر لعنت کی جیسا کہ یہ اس وقت کی روایت تھی۔ یہ سننے پر حجر بن عدی اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت علی کی ثناء کی جس پر زیاد نے انہیں زنجیروں میں بندھوا کر معاویہ کے پاس بھیج دیا۔

حاشیہ: اور ابن جوزی نے بھی یہی روایت کی ہے حسن بن بصری سے۔۔۔کہ معاویہ نے حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو کو قتل کیا اور حجر بڑے لوگوں میں سے تھے۔


ناصبیوں کا امام ابن کثیر البدایہ والبہایہ، ج 8 ص 973 (نفیس اکیڈمی کراچی) میں لکھتا ہے:

حضرت حسن بصری سے روایت کی گئی ہے کہ آپ حضرت معاویہ کو چار باتوں پر ملامت کرتے تھے، علی سے جنگ کرنے پر، حضرت حجر بن عدی کے قتل کرنے پر، زیاد بن امیہ کے استحقاق پر اور اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینے پر۔
 البدایہ والبہایہ، ج 8 ص 973 (نفیس اکیڈمی کراچی)۔

جواب نمبر 3: امام ابن سیریں کا حجر بن عدی کی ثناء کرنا


امام ِ اہل ِسنت محمد بن سیریں (متوفی 110 ھ) نے حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق جو کہا ہے وہ اسدالغابہ، ج 1 ص 245 میں یوں درج ہے:

وسئل محمد بن سيرين عن الركعتين عند القتل، فقال‏:‏ صلاهما خبيب وحجر، وهما فاضلان، وكان الحسن البصري يعظم قتل حجر وأصحابه‏.‏

کسی نے محمد بن سیریں سے اس دو رکعت نماز کے متعلق سوال کیا جو قتل ہونے سے قبل پڑھی جائے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ خبیب اور حجر نے اسی طرح نماز ادا کی تھی اور وہ دونوں فاضل تھے اور حسن بصری نے بھی حجر اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی مزمت کی ہے۔


جواب نمبر 4: امام زھبی، امام ابن حبان اور ابن عساکر کی گواہیاں کہ حجر نیک و پرہیزگار شخص تھے


ناصبیت کی نجاست کی انتہاء ہے کہ جب ان کے اپنے پیشوا کی شامت آئی تو انہوں نے اسے بچانے کی غرض سے ایک باوفاء صحابی پر یہ الزام دھر دیا۔ لیکن نواصب کو باوفاء صحابہ سے کیا غرض! خیر، ہم جناب حجربن عدی (رض) کا کردار اہل ِسنت کے آئمہ کی زبانی ہی پیش کیئے دیتے ہیں۔ امام عبدالرؤف المناوی کتاب فیض القدیر شرح جامع صغیر، حدیث 4765 میں حافظ ابن عساکر کے الفاظ پر انحصار کرتے ہیں:

ابن عساكر في تاريخه عن أبي معشر وغيره‏:‏ كان حجر عابداً ولم يحدث قط إلا توضأ ولا توضأ إلا صلى

ابن عساکر نے اپنی کتاب میں ابی معشر اور دیگر سے روایت کی ہے کہ حجر عبادت گزار تھے، اگر ان پر کوئی نجاست مسخ ہوجاتی تو وہ فوراً ہی وضو بجالاتے اور جب بھی وضو بجالاتے تو نماز ضرور ادا کرتے۔


امام ذھبی اپنی کتاب سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 462 میں لکھتے ہیں:

وكان شريفا أميرا مطاعا أمارا بالمعروف مقدما على الأنكار من شيعة علي رضي الله عنه شهد صفين أميرا وكان ذا صلاح وتعبد

وہ ایک شریف شخص تھے، با اختیار کمانڈر تھے۔ امر بلمعروف (یعنی اچھائی کے کام بجالاتے)، وہ شیعان ِعلی (رض) سے تھے، انہوں نے جنگ صفین میں کمانڈر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ وہ عبادت گزار اور نیک انسان تھے۔


اگرچہ امام ابن حبان نے اپنی کتاب مشاھیر علماء الامصار، ص 144 میں حجر بن عدی کو تابعین میں شمار کردیا ہے لیکن ان کے عبادت گزار ہونے کی تصدیق کی ہے۔

من عباد التابعين ممن شهد صفين مع علي بن أبي طالب

وہ عبادت گزار تابعین میں سے تھے اور انہوں نے علی بن ابی طالب کے ساتھ جنگ صفین میں حصہ لیا۔


جواب نمبر 5: حضرت ابو بکر و عمر کے خاندانوں کا حجر کے قتل کی مذمت کرنا ثبوت ہے کہ وہ فتنہ انگیز نہ تھے


ناصبی عالم ِدین ابن خلدون نے اپنی تاریخ، ج 2 ص 12 میں لکھا ہے:

أرسلت عبد الرحمن بن الحرث إلى معاوية يشفع فيهم ۔۔۔ أسفت عائشة لقتل حجر و كانت تثني

حضرت عائشہ نے عبدالرحمان بن الحرث کو حجر کے بچانے کے لئے بھیجا ۔۔۔ ان کے قتل کے بعد حضرت عائشہ نے افسوس کا اظہار کیا اور وہ حجر کی بہت ثناء کیا کرتی تھیں


الاصابہ میں تحریر ہے کہ جب معاویہ مدینہ آیا تو حضرت عائشہ نے معاویہ سے جو پہلا سوال کیا وہ جناب حجر بن عدی کے قتل کا تھا۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 55 میں 51 ہجری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

مروان نے بیان کیا ہے کہ میں معاویہ کے ہمراہ حضرت عائشہ کے پاس گیا تو حضرت عائشہ نے کہا کہ اے معاویہ، تو نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرڈالا، تو نے جو کرنا تھا وہ تو توُ کر چکا لیکن میرے پاس آنے سے قبل تجھے اس بات کا خوف نہیں تھا کہ میں ایک آدمی کو چھپا کر رکھ سکتی ہوں تجھے قتل کرنے کی غرض سے۔

پھر ابن کثیر نے لکھا ہے:

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے معاویہ سے پردہ کرلیا اور کہا کہ آئندہ کبھی میرے پاس نہ آنا۔

پھر ابن کثیر نے لکھا ہے:

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ معاویہ کو دھمکی دیتیں اور اس سے کہتیں: اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ احمق لوگ ہمارے اوپر فتح حاصل کرلینگے تو میرے اور معاویہ کے درمیان حجرکے قتل کے معاملہ پر تنازع ہوجاتا۔

حضرت ابو بکر کے خاندان کا حضرت حجر بن عدی (رض) کے ناحق قتل پر اظہار ِ افسوس و مذمت تو دیکھ لیا اب آئیے خاندان ِخطابی کے چشم و چراغ عبداللہ بن عمر کا کتاب الاستعیاب، ج 1 ص 97 میں:

كان ابن عمر في السوق فنعي إليه حجر فأطلق حبوته وقام وقد غلب عليه النحيب

ابن عمر بزار میں موجود تھے جب انہیں حجر کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے اپنی چادر پھینک دی اور بے ساختہ چیخ اٹھے۔


جواب نمبر 6: صحابہ کی نظر میں حضرت حجر کے قاتل لعنت کے مستحق ہیں


قاضی ابو بکر العربی (متوفی 543 ھ) اپنی مشہور کتاب العواصم من القواصم، ص 341 میں زیاد کے متعلق صحابہ ِکرام کی آراء کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

فإن قيل : فلم أنكر عليه الصحابة ؟

اگر یہ سوال کیا جائے: صحابہ زیاد پر تنقید کیوں کرتے تھے؟


پھر اسی بات کو اگے بڑھاتے ہوئے کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والے علامہ محب الدین الخطیب (متوفی 1389 ھ) لکھتے ہیں:

إنما لعنه من لعنة لوجهين ۔۔۔ وكان زياد أهلاً ان يلعن – عندهم – لما حدث بعد استلحق معاوية ۔۔۔ وأهم ذلك – عندهم تسببه في قتل حجر بن عدى

جن صحابہ نے زیاد پر لعنت کی تو وہ دو وجوہات کی بنا پر۔۔۔صحابہ کے مطابق زیاد لعنت کا مستحق ان حرکات کی بنا پر بنا جو اس نے معاویہ کے ساتھ ملنے کے بعد انجام دیئے ۔۔۔ اور اس سلسلے میں سب سے اہم وجہ حجر بن عدی کے قتل میں زیاد کا کردار تھا۔


جواب نمبر 7: حضرت حجر کے ناحق قتل پر معاویہ کا ایک ناصبی ساتھی بھی غم زدہ ہوگیا


حضرت حجر بن عدی (رض) کا دردناک قتل ایسا فعل تھا کہ معاویہ کے باقی ناصبی ساتھیوں میں سے ایک ربیع بن زیاد کا بغض ِعلی سے بھرا دل بھی ہل کر رہ گیا۔ امام ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، ج 3 ص 211 ترجمہ نمبر 469 میں ربیع بن زیاد کے متعلق لکھتے ہیں:

وہ خراسان میں معاویہ کا ملازم تھا اور حسن البصری اس کے کاتب تھے۔ جب اس نے حجر اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے متعلق سنا تو اس نے کہا کہ اے اللہ، اگر تیرے پاس ربیع کے لئے کچھ اچھا ہے تو اسے اسی وقت بلالے۔ چنانچہ اسی مجلس میں اس کی موت ہوگئی۔ حجر اور ان کے ساتھیوں کا قتل 51 ہجری میں ہوا۔

امام ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 245 میں بھی اسی طرح لکھا ہے:

ولما بلغ الربيع بن زياد الحارثي، وكان عاملاً لمعاوية على خراسان، قتل حجر، دعا الله عز وجل وقال‏:‏ اللهم إن كان للربيع عندك خير فاقبضه إليك وعجل، فلم يبرح من مجلسه حتى مات‏.‏

جب حجر اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی خبر ربیع بن زیاد الحارثی کو ملی جو خراسان میں معاویہ کا ملازم تھا، تو اس نے کہا کہ اے اللہ، اگر تیرے پاس ربیع کے لئے کچھ اچھا ہے تو اسے اسی وقت بلالے۔ چنانچہ اس نے وہ مجلس نہ چھوڑی حتیٰ کہ اس کی موت ہوگئی۔


امام ابن حجر عسقلانی اپنی دوسری کتاب تقریب التھذیب، ص 206 ترجمہ نمبر 1890 میں ربیع بن زیاد کے متعلق لکھتے ہیں:

الربيع ابن زياد الحارثي البصري مخضرم [وقيل له صحبة، وذكره ابن حبان في ثقات التابعين] من الثانية ذكر صاحب الكمال أنه أبو فراس الذي روى عن عمر ابن الخطاب ورد ذلك المزي د س

ربیع بن زیاد الحارثی البصری [قول ہے کہ وہ صحابی تھے اور ابن حبان نے ان کا ذکر کتاب ثقات التابعین میں کیا ہے] دوسرا یہ کہ کتاب الکمال کے مصنف نے لکھا ہے کہ ان کا اصل نام ابو فراس ہے جنہوں نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے۔


جواب نمبر 8: سنی آئمہ کا فیصلہ کہ حجر شہید ہوئے ہیں اور ان کے لئے رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کا استعمال ثبوت ہے کہ وہ نیک صحابہ تھے ناکہ باغی


امام ِاہل ِسنت محمد بن احمد سرخسی (متوفی 483 ھ) جن کا لقب شمس الائمہ ہے، سنی مسلک میں فقہ پر لکھی گئی اہم کتابوں میں سے ایک المبسوط، ج 6 ص 138 میں لکھتے ہیں:

ويصنع بقتلى أهل العدل ما يصنع بالشهيد فلا يغسلون ويصلى عليهم هكذا فعل علي - رضي الله عنه - بمن قتل من أصحابه وبه أوصى عمار بن ياسر وحجر بن عدي وزيد بن صوحان - رضي الله عنهم - حين استشهدوا

اہل ِعدل میں سے قتل ہونے والوں کی میتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ وہی ہونا چاہیئے جو شہیدوں کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی ان کو غسل دیئے بغیر ہی ان کی نماز ِجنازہ پڑھنی چاہیئے، یہی وہ عمل ہے جو علی (رض) اس کے صحابہ میں سے قتل ہوجانے والوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اور یہی عمل عمار یاسر، حجر بن عدی اور زید بن صوحان - اللہ ان تمام سے راضی ہو- وقت ِشہادت وصیت کے ذریعے کرنے کا لکھ گئے تھے۔


جواب نمبر 9: رسول اللہ (ص) کی پیشن گوئی کہ حضرت مالک بن اشتر (رح) اور حضرت حجر بن عدی (رض) مومنین سے ہیں


امام ابن سعد نقل کرتے ہیں:

ابراہیم بن الاشتر نے اپنے والد سے روایت کی کہ جب ابوذر کی وفات کا وقت آیا تو انکی بیوی رونے لگیں، انہوں نے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز رلاتی ہے۔ کہنے لگیں کہ میں اس لئے روتی ہوں کہ تمہارے دفن کی مجھے طاقت نہیں ، نہ میرے پاس کوئی ایسا کپڑا ہے جو کفن کے لئے کافی ہو۔ انہوں نے کہا روؤ نہیں ، میں نے رسول اللہ (ص) کو ایک جماعت سے جن میں میں بھی شامل تھا، فرماتے سنا کہ ضرور ضرور تم میں سے ایک شخص بیابان میں مرے گا جس کے پاس مومنین کی ایک جماعت آئیگی ۔ میں وہی شخص ہوں جو بیابان میں ہوتا ہے۔ واللہ نہ میں نے جھوٹ کہا اور نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا لہٰذا راستہ دیکھو۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوگا حاجی بھی تو چلے گئے اور راستے طے ہو گئے۔
وہ ایک ٹیلے پر جاتیں کھڑی ہو کر دیکھتیں پھر واپس آکر انکی تیمارداری کرتیں اور ٹیلے کی طرف اسی حالت میں تھیں کہ انہیں ایک قوم نظر آئی جن کی سواریاں انہیں اس طرح لئے جا رہی تھیں کہ گویا چمر گدھ ہیں، چادر ہلائی تو وہ لوگ آئے اور ان کے پاس رک گئے اور پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان کی وفات ہوئی ہے ، تم لوگ اسے کفن دو۔ پوچھا وہ کون ہے ، انہوں نے کہا ، ابو ذر ہیں، کہنے لگے کہ ان پر ہمارے ماں باپ فدا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
قوم ان اوصاف میں سے کسی نہ کسی کی حامل تھی، سوائے ایک نوجوان انصاری ، جس نے کہا کہ میں آپ کو کفن دونگاکیونکہ آپ نے جو بیان کیا میں نے اس میں سے کچھ نہیں پایا۔ میں آپ کو اس چادر میں کفن دونگا جو میرے بدن پر اور ان چادروں میں سے جو میرے صندوق میں تھی اور انہوں نے میرے لئے بُنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تم مجھے کفن دینا۔ راوی نے کہا کہ انہیں اس انصاری نے کفن دیا جو اس جماعت میں تھے اور ان کے پاس حاضر ہوئے۔ انہیں میں حجر بن الابرد اور مالک الاشتر بھی ایک جماعت کے ساتھ ، یہ سب کے سب یمنی تھے۔

 طبقات ابن سعد ، ج 2، صفحہ 401401-402، دارالاشاعت کراچی

جواب نمبر 10: فتنہ انگیزی علی بن ابی طالب (ع) کو منبروں سے گالیاں دینے کا عمل تھا ناکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کا


حضرت حجر بن عدی (رض) جیسے باکردار و باوفاء صحابی کو فتنہ انگیز کہنے والوں، فتنہ انگیزی وہ تھی جو تمہارے باب دادا معاویہ نے تمہارے چہتے خلیفہ راشد کو منبروں سے گالیوں اور لعنتوں کی شکل میں جاری کی تھی نا کہ اس وقت کے خبیثوں کی جاری کردہ اس مکروہ بدعت کے خلاف کلمہ ِحق بلند کرنا۔

حضرت حجر بن عدی (رض) کے متعلق اس باب میں ہم اپنی گفتگو کو دار العلوم قادریہ جیلانیہ لندن کے مفتی غلام رسول کے الفاظ پر کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب صبح الصادق، ص 93-94 میں لکھے ہیں:

حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کا یہ واقعہ 51 ہجری میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی ساری رحمتیں نازل فرمائے کہ انہوں نے اپنی جانوں کو حضرت علی شیر خدا کی عزت پر قربان کر دیا ان کو شامی جلادوں نے کہا تھا کہ تمہاری جانیں صرف اور صرف اس صورت میں بچ سکتی ہیں کہ تم حضرت علی شیر خدا کو سب و شتم کرو۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم کبھی ایسا نہیں کریں گے جس سے خدا ناراض ہو۔ حضرت حجر بن عدی اور آپ کے ساتھی جانتے تھے کہ تمام حق حضرت علی شیر خدا کے ساتھ ہے اور آپ ہی من کنت مولا ہ فعلی مولا ہ ہیں اور آپ بمنزلہ ہارون ہیں اور رسول خدا کے دنیا اور آخرت میں بھائی ہیں اور ان کے حق میں 300 آیات قرآنیہ نازل ہوئی ہیں اور علی ہی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے اور علی کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور علی شیر خدا کے ساتھ بغض و عداوت رکھنا کفر ہے اور ان سے برائت کرنا یا بیزاری کا اظہار کرنا صریح بے دینی ہے اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت رکھنا عین ایمان ہے اور اور حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان ان کے سامنے تھا کہ علی کے ساتھ محبت مومن رکھتا ہے اور علی کے ساتھ بغض منافق رکھتا ہے ۔ ان تمام باتوں کے جاننے کے باوجود حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھی حضرت مولیٰ شیر خدا سے بیزاری کا اظہار کیسے کر سکتے تھے لہٰذا حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں نے بخوشی موت کو قبول کیا اور حضرت شیر خدا کی عزت و عظمت پر اپنی پیاری جانوں کو قربان کر دیا
 صبح الصادق، ص 93-94 (لندن)۔


معاویہ کا مالک بن اشتر (رح) کو قتل کرنا


اس سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل اہل ِسنت کی کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 144-146
2۔ تذکرۃ الخواص، ص 64
3۔ تاریخ ابن خلدون، ج 2 ص 191
4۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 179
5۔ طبقات الکبرہ ، ج 6 ص 213

تلخیص کو ملحوظ ِخاطر رکھتے ہوئے ہم تاریخ طبری پر اکتفا کرتے ہیں۔

جب علی بن ابی طالب صفین سے واپس آئے تو انہوں نے مالک بن اشتر کو دوبارہ اس کی بٹالین میں جزیرہ پر بھیج دیا اور قیس بن سعد سے کہا کہ تم میرے ساتھ میرے محافظین کے انچارج بن کر رہو جب تک کہ ثالثی کا معاملہ مکمل نہ ہوجائے اور پھر تم آزربائیجان چلے جانا۔ لہٰذا قیس علی کے ساتھ ان کے محافظین کے اوپر انچارج رہے اور جب ثالثی کا معاملہ ختم ہوا تو علی نے مالک بن الحارث الاشتر کو جو اس وقت نصیبین میں تھے، لکھا کہ اب تم میرے لئے ان لوگوں میں سے ہو جن کی مدد مجھے دین کو مظبوط کرنے کے لئے درکار ہے، جن کے ذریعے میں گناہگاروں کا غرور کم کرسکوں اور جن کے ذریعے میں خطرناک اضلاع کا دفاع کرسکوں۔ میرے پاس مصر میں محمد بن ابو بکر ہے لیکن خوارج وہاں اس کے خلاف نکل آئے ہیں اور وہ ایک نوجوان ہے جسے جنگ اور انتشار کا کوئی تجربہ نہیں۔ میرے پاس آجاؤ تاکہ ہم سوچ سکیں کہ اس سلسلے میں کیا ضروری ہے اور اپنے صوبہ کو اپنے ان لوگوں کے حوالے کرو جو قابل ِبھروسہ اور نیک نیت مشیر ہوں۔

مالک تشریف لے آئے اور علی ان کی پاس پہنچے۔ علی نے انہیں مصر کے آدمیوں کی صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ تم ہی واحد شخص ہو اس جگہ کے لئے اس لئے وہاں چلے جاؤ، اللہ تمہارے اوپر رحم کرےگا۔ اگر میں تمہیں نہیں بتارہا کہ تمہیں کیا کرنا ہوگا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے تمہارے فیصلوں پر بھروسہ ہے۔ اگر کوئی بات پریشان کرے تو اللہ کی مدد طلب کرنا اور سختگی کا نرمگی کے ساتھ امتزاج رکھنا۔ اس وقت تک نرم رہنا جب تک نرمی سے کام ہورہا ہو لیکن سختگی پر اصرار کرنا جب اس کی ضرورت ہو۔ لہٰذا مالک بن اشتر چلے گئے اور علی بھی جہاں حالات چھوڑ کر آئے تو وہیں چلے گئے اور مصر جانے کی تیاری شروع کردی۔

معاویہ کے جاسوس معاویہ کے پاس آئے اور اسے علی کی جانب سے مالک بن اشتر کی تعیناتی کی اطلاع دی جو معاویہ پرگراں گزری کیونکہ وہ مصر کے حالات سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ اگر الاشتر وہاں پہنچ گئے تو وہ محمد بن ابو بکر سے زیادہ مشکل شخص ثابت ہونگے۔ لہٰذا معاویہ نے الجیستر جو کہ ٹیکس پر مامور تھا، اسے بتایا کہ الاشتر کی مصر میں تعیناتی ہوگئی ہے اور کہا کہ اگر تم نے الاشتر کو سنبھال لیا تو میں جب تک زندہ ہوں تم سے ٹیکس وصول نہیں کیا کرونگا، اس لئے اس کو مات دینے کے لئے جو کچھ تم کرسکتے ہو کرو۔ لہٰذا الجیستر القزلوم چلا گیا اور وہاں انتظار کیا۔ الاشتر نے مصر جانے کےلئے عراق چھوڑا اور جب وہ القزلوم پہنچے، الجیستر ان سے ملا اور کہا کہ یہاں ایک جگہ ہے رہنے کے لئے اور یہ رہا کھانا پینا۔ میں ٹیکس پر معمور لوگوں میں سے ایک ہوں۔ الاشتر وہاں اس کے ساتھ رک گئے اور ایک آدمی کھانا پینا لیکر آیا۔ پھر جب انہوں نے کھانا کھلایا تو الجیستر نے الاشتر کو شہد سے بنا مشروب پیش کیا جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ الجیستر نے جب وہ الاشتر کو پینے کے لئے دیا اور جب انہوں نے سارا پی لیا تو وہ انتقال کرگئے۔

ادھر معاویہ شامیوں کو بتانے کے لئے آیا کہ علی نے الاشتر کو مصر بھیجا ہے، خدا سے دعا کرو کو وہ تم لوگوں کو الاشتر کے لئے کافی کردے۔ لہٰذا شامیوں نے ہر روز خدا سے الاشتر کے خلاف دعائیں مانگنا شروع کردیں پھر جس نے الاشتر کو مشروب دیا تھا وہ معاویہ کے پاس آیا اور اسے الاشتر کی موت کی خبر دی۔ معاویہ لوگوں میں جاکھڑا ہوا اور ایک خطبہ دیا جس میں اس نے خدا کی ثناء کی اور پھر کہا کہ علی بن ابی طالب کے دو دائیں ہاتھ تھے، جس میں سے ایک تو صفین کے روز کٹ گیا تھا (یعنی عمار بن یاسر) جبکہ دوسرا آج کٹا ہے (یعنی مالک الاشتر)۔



معاویہ کا صحابی ِرسول حضرت عمرو بن الحمق کو قتل کرنا


معاویہ کا صحابی ِرسول حضرت عمرو بن الحمق کو ناحق قتل کرنا ان معتبر سنی کتابوں میں درج ہے:

1۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 48
2۔ الاستیعاب، ج 1 ص 363
3۔ الاصابہ، ج 4 ص 623 ترجمہ نمبر 5822
4۔ اسدالغابہ، ج 1 ص 846
5۔ طبقات الکبرہ ، ج 6 ص 25
6۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 250
7۔ رسالہ ابو بکر الخوارزمی، ص 122
8۔ تاریخ ابن خلدون، ج 3 ص 12
9۔ المعارف، ص 127
10۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 137

سب سے پہلے تو تقریب التھذیب، ص 420 ترجمہ نمبر 5017 سے عمرو بن الحمق کا مختصر تعررف:

عمرو ابن الحمق بفتح المهملة وكسر الميم بعدها قاف ابن كاهل ويقال الكاهن بالنون ابن حبيب الخزاعي صحابي سكن الكوفة ثم مصر قتل في خلافة معاوية س ق

عمرو ابن الحمق، ابن کاھل، اور لوگ انہیں الکاھن بھی پکارتے ہیں، الحبیب الخزاعی، صحابی ہیں جو پہلے کوفہ اور پھر مصر میں رہے، وہ خلافت ِ معاویہ کے دوران قتل کردیئے گئے تھے۔


ابن اثیر نے اسدالغابہ میں لکھا ہے:

عمرو کو گرفتار کر کے قتل کردیا گیا اور ان کا سر معاویہ کو شام میں بھیج دیا گیا۔

مزید لکھتے ہیں:

‏‏ أول رأس حمل في الإسلام رأس عمرو بن الحمق إلى معاوية-

اسلام میں جو پہلا سر کاٹ کر نیزے پر بلند کیا گیا وہ عمر بن الحمق کا ہی ہے جو کہ معاویہ کو بھیج دیا گیا تھا۔


تاریخ طبری میں درج ہے:

جب عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے عمرو بن الحمق کو دیکھا تو ان کو پہچان لیا اور معاویہ کو یہ ساری معلومات لکھ بھیجیں۔ معاویہ نے جواب میں لکھا کہ عمرو کا دعویٰ ہے کہ اس نے عثمان بن عفان کو نو مرتبہ پھواڑے سے ضرب لگائی تھی لہٰذا اس کو اسی طرح نو مرتبہ ضرب لگائو جیسے اس نے عثمان کو لگائیں تھیں۔ اس پر عمرو کو نکالا گیا اور ان پر نو مرتبہ ضربیں لگائی گیئں لیکن وہ پہلی یا دوسری ضرب پر ہی انتقال فرما گئے۔

حضرت عثمان کے قتل میں حضرت عمرو بن الحمق کے کردار کی جہاں تک بات ہے تو ابن سعد طبقات الکبرہ میں لکھتے ہیں:

كان المصريون الذين حصروا عثمان ستمائة رأسهم عبد الرحمن بن عديس البلوي وكنانة بن بشر بن عتاب الكندي وعمرو بن الحمق الخزاعي والذين قدموا من الكوفة مائتين رأسهم مالك الأشتر

چھ سو مصریوں نے عثمان پر حملہ کیا اور ان کی قیادت عبدالرحمان بن عدیس البلوی، جنانہ بن بشر بن عتاب الکندی اور عمرو بن الحمق الخزاعی کررہے تھے جبکہ کوفہ سے آنے والوں کی قیادت مالک بن اشتر نے کی۔


جبکہ نواصب کے امام ابن کثیر نے حضرت عمرو بن الحمق کے متعلق لکھا ہے:

ومع هذا كان أحد الأربعة الذين دخلوا على عثمان،

وہ ان چار افراد میں سے ایک تھے جو حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہوگئے تھے۔


بیت الرضوان میں شرکت کرنے والے نامور صحابی ِرسول حضرت عمرو بن الحمق کا قتل نواصب کے نجس گلوں میں پھنسی وہ ہڈی ہے جو یہ لوگ نہ نکال سکتے ہیں نہ ہی نگل سکتے ہیں کیونکہ نواصب کا دعویٰ ہے کہ حضرت عثمان کے قتل میں صحابہ کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن ان کے باب دادا معاویہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت عمروبن الحمق کو قتل کردیا کہ انہوں نے ہی حضرت عثمان کو ضرب ِقاتل دی تھی۔ نواصب کے پاس اب دو آپشن ہیں:

1. آیا قبول کرلیں کہ صحابہ کرام کا حضرت عثمان کے خلاف بغاوت اور پھر ان کے قتل میں کردار بالکل تھا

2. یا پھر یہ کہ ان کے باب دادا معاویہ نے ایک صحابی ِجلیل پر قتل کا الزام لگا کر انہیں ناحق قتل کرڈالا اور مومن کو ناحق قتل کرنے والا ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلنے والا ہے ((آیت)۔


معاویہ نے بے گناہ شیعہ مومنات کو قید رکھا


ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 586 جبکہ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 52 میں لکھا ہے:

فبعث معاوية إلى نائبها فوجدوه قد اختفى في غار فنهشته حية فمات، فقطع رأسه فبعث به إلى معاوية، فطيف به في الشام وغيرها، فكان أول رأس طيف به‏.‏ ثم بعث معاوية برأسه إلى زوجته آمنة بنت الشريد -وكانت في سجنه - فأُلقي في حجرها، فوضعت كفها على جبينه ولثمت فمه وقالت‏:‏ غيبتموه عني طويلاً، ثم أهديتموه إليّ قتيلاً، فأهلا بها من هدية غير قالية ولا مقيلة‏.‏
حضرت عمروبن الحمق کا سر کاٹ کر معاویہ کو بھیج دیا گیا اور اس کو شام وغیرہ کے علاقوں میں پھرایا گیا۔ یہ پہلا سر تھا جو شہروں میں پھرایا گیا۔ اس سر کو حضرت عمروبن الحمق کی زوجہ حضرت آمنہ بنت شرید کے سپرد کردیا گیا جن کو معاویہ نے جیل میں قید کر رکھا تھا۔ سر کو حضرت آمنہ کی گود میں پھینک دیا گیا۔ حضرت آمنہ نے اپنا ہاتھ سر کی پیشانی پر پھیرا اور چہرہ کو بوسہ دیا اور کہا کہ تم نے مجھے ان سے اتنے وقت تک محروم رکھا اور اب ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر کو مجھے بھیج دیا ہے، لہٰذا میں یہ تحفہ قبول کرتی ہوں۔


جنگ ِاحد میں رسول اللہ (ص) نے صحابہ کو منع فرمایا تھا کہ کسی کافر عورت کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا لیکن ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ معاویہ سنتِ رسول اللہ (ص) کا ایسا منکر انسان تھا کہ شیعہ مومنات کو جیل میں قید کررکھا تھا جن کے خاوندوں کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ علی بن ابی طالب (ع) سےمحبت کرتے تھے اور جن میں ایک صحابی ِرسول کی زوجہ بھی شامل تھیں۔ آج اگر امریکی ابو غریب جیل میں مسلمان خواتین کا ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو پس وہ معاویہ جیسے جلاد کی ہی پیروی ہے۔


معاویہ نے عبید اللہ بن عباس کے دو کم سن بچوں کو ناحق قتل کرڈالا


عبیداللہ بن عباس رسول اللہ (ص) کے چچا کے بیٹے اور مولا علی بن ابی طالب (ع) کے دور میں یمن کے حکمران تھے۔ رسول اللہ (ص) سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو ہٹانے کی غرض سے معاویہ نے ہر جگہ دہشت گردی کا آغاز کروادیا اور اس سلسلے میں عرب دنیا کہ بدنام ِزمانہ غنڈے بسربن ارطات کو یمن اور حجاز روانہ کردیا تاکہ وہ وہاں جاکر بےگناہ شیعہ مرد، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کرے۔ دہشت گردی کی اس مہم کے دوران بنی ہاشم کے دو معصوم بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔

1۔ الاستیعاب، ج 1 ص 3632۔
2۔ شذر الذھب، ص 64
3۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 207-208
4۔ مروج الذھب، ج 3 ص 30
5۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 194
6۔ تاریخ ابن عساکر، ج 10 ص 147
7۔اسدالغابہ، ج 1 ص 213
8۔ تاریخ السلام، ج 2 ص 187

علامہ ابن عبدالبر کتاب الاستعیاب میں لکھتے ہیں:

وكان يقول فيه رجل سوء۔۔۔ ذبحه ابني عبيد الله بن العباس بن عبد المطلب وهما صغيران بين يدي أمهما وكان معاوية قد استعمله على اليمن أيام صفين

بسر بن ارطات ایک برا آدمی تھا۔۔۔۔ اس نے عبیداللہ بن عباس بن عبد المطلب کے دو بچوں کے گلے ان کی ماں کی نظروں کے سامنے چاک کرڈالے، معاویہ نے بسر کو صفین کےدنوں یمن بھیجا ہوا تھا


حافظ ابن عساکر نے لکھا ہے:

بعثه معاوية إلى اليمن فقتل بها ابني عبيد الله ( 1 ) بن العباس وصحب معاوية إلى أن مات

معاویہ نے بسر کو یمن بھیجا تو اس نے عبیداللہ بن العباس کے دو بچوں کو قتل کرڈالا اور وہ آخری دم تک معاویہ کا ساتھی رہا۔


آج اگر مساجد میں معصوم بچوں تک کو نہیں بخشا جارہا تو اس کا سارا کریڈٹ انسان دشمن معاویہ کو ہی جاتا ہے جو دہشت گردوں کو درندگی کی انتہاء بتا گیا۔ حالانکہ صحیح بخاری کی حدیث ہے:

عبدااللہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں ایک عورت مردہ حالت میں پائی گئی۔ رسول اللہ (ص) نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے سخت منع فرمایا۔

بعض شاطر ناصبی یہ بہانہ کرتے ہیں کہ معاویہ نے ان تمام لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے تو نہیں مارا اس لیے اس میں معاویہ کا کیا قصور۔ ایسے گستاخ نواصب کے لیے سورہ قصاص کی وہ آیات یاد دلا دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا ذمہ دار فرعون کوہی ٹھہرایا ہے گو کہ فرعون نے قتل اپنے ہاتھوں سے نہیں کیے تھے بلکہ اس کے آدمیوں نے کیے تھے۔



عبدالرحمٰن بن حسان کو معاویہ نے زندہ درگور کردیا


۔ تاریخ کامل، ج 3 ص 245
2۔ تاریخ طبری (انگریزی) ج 18 ص 151
3۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 52

ابن اثیر کتاب تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:

ثم قال لعبد الرحمن بن حسان‏:‏ يا أخا ربيعة ما تقول في علي قال‏:‏ دعني ولا تسألني فهو خير لك‏.‏ قال‏:‏ والله لا أدعك‏.‏ قال‏:‏ أشهد أنه كان من الذاكرين الله تعالى كثيرًا من الآمرين بالحق والقائمين بالقسط والعافين عن الناس‏.‏ قال‏:‏ فما قولك في عثمان قال‏:‏ هو أول من فتح أبواب الظلم وأغلق أبواب الحق‏.‏ قال‏:‏ قتلت نفسك‏!‏ قال‏:‏ بل إياك قتلت ولا ربيعة بالوادي يعني ليشفعوا فيه فرده معاوية إلى زياد وأمره أن يقتله شر قتلة فدفنه حيًا‏.‏

جب حضرت عبدالرحمٰن بن حسان کو گرفتار کیا گیا اور معاویہ کے سامنے پیش کیا گیا تب معاویہ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری علی کے متعلق کیا رائے ہے؟ عبدالرحمٰن نے جوا ب دیا کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ تم مجھ سے علی کے متعلق میری رائے نہ پوچھو۔ معاویہ نے کہا باخدا میں تمہیں نہیں چھوڑونگا۔ عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ان لوگوں میں سے ہیں جو اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرتے ہیں اور دنیا میں انصاف کرتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو درگزر کرتے ہیں۔ پھر معاویہ نے پوچھا کہ عثمان کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ عبدالرحمٰن نے جواب دیا کہ عثمان پہلے شخص تھے جنہوں نے ظلم کا باب کھولا اور حق کا باب بند کردیا۔ معاویہ نے کہا، تم نے اپنے آپ کو قتل کرڈالا۔ حضرت عبدالرحمٰن نے جواب دیا، نہیں بلکہ تم نے خود کو قتل کرڈالا۔ پھر معاویہ نے عبدالرحمٰن کو زیاد کے پاس اس حکم کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ انہیں بری طرح قتل کردیا جائے لہٰذا زیاد نے انہیں زندہ درگور کردیا۔


علی بن ابی طالب (ع) کی محبت احادیث کے مطابق ایمان کا ثبوت ہے اور کوئی کافر، منافق اور اولاد ِالزنا ہی علی بن ابی طالب (ع) سے بغض رکھ سکتا ہے لیکن یہاں ناصیوں کا امام معاویہ علی بن ابی طالب (ع) سے محبت کا اظہار کرنے والوں کو چن چن کر بےدردی سے قتل کررہا ہے۔ ہم بنی امیہ کے جلاد حکمرانوں کے چاہنے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے جرم کی پاداش میں بھی کسی کو زندہ درگو کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ لوگ تو پس حدیث کے مطابق علی بن ابی طالب (ع) سے محبت ہی کرتے تھے!


معاویہ نے بےگناہ شیعوں کے قتل ِعام کاحکم دیا


الاستیعاب، ج 1 ص 49 میں ہم پڑھتے ہیں:

وقال أبو عمرو الشيباني لما وجه معاوية بسر بن أرطاة الفهري لقتل شيعة علي رضي الله عنه

ابو عمرو الشیبانی نے کہا ہے کہ معاویہ نے بسر بن ارطات الفھری کو شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا۔


اسدالغابہ، ج 1 ص 113 کی عبار ملاحظہ ہو:

وكان معاوية سيره إلى الحجاز واليمن ليقتل شيعة علي

معاویہ نے بسر بن ارطات کو حجاز اور یمن روانہ کیا تاکہ وہ کو شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرے


اسی طرح الاصابہ، ج 1 ص 289 میں درج ہے:

وكان معاوية وجهه إلى اليمن والحجاز في أول سنة أربعين وأمره أن ينظر من كان في طاعة على فيوقع بهم

41 ہجری کے اوائل میں معاویہ نے بسر کو حجاز اور یمن اس حکم کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ علی کی پیروی کرنے والوں کو قتل کرے۔



معاویہ نے بےگناہ شیعہ مومنات کو غلام بنایا اور فروخت کردیا


لعینوں کی ٹولی یعنی معاویہ اور بسربن ارطات کے وحشیانہ کارنامے اور بھی ہیں۔ امام ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج ا ص 113 میں بسربن ارطات کا احوال لکھتے ہوئے بیان کیا ہے:

وشهد صفين مع معاوية وكان شديدا على علي وأصحابه ۔۔ وكان معاوية سيره إلى الحجاز واليمن ليقتل شيعة علي ۔۔۔ وأغار على همدان باليمن وسبى نساءهم فكن أول مسلمات سبين في الإسلام
بسر نے معاویہ کے ہمراہ جنگ صفین میں حصہ لیا اور وہ علی اور علی کے صحابہ کا شدید مخالف تھا۔۔۔ معاویہ نے اسے حجاز اور یمن روانہ کیا تاکہ وہ شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرے۔۔۔ یمن میں اس نے حمدان کے نامور قبیلے پر حملہ کیا اور ان کی عورتوں کو قید کرلیا۔ وہ پہلی مسلمان خواتین تھیں جنہیں قید کیا گیا اور پھر غلام بنا لیا گیا۔


علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب، ج 1 ص 49 میں لکھا ہے:

وقال أبو عمرو الشيباني لما وجه معاوية بسر بن أرطاة الفهري لقتل شيعة علي رضي الله عنه۔۔۔ ذكر أبو عمر الشيباني أغار بسر بن أرطاة على همدان وسبى نساءهم فكان أول مسلمات سبين في الإسلام

ابو عمرو الشیبانی نے کہا ہے کہ معاویہ نے بسر بن ارطات الفھری کو شیعان ِعلی (رض) کو قتل کرنے کے لیے بھیجا۔۔۔۔ ابو عمرو الشیبانی نے کہا کہ بسر بن ارطات نے حمدان پر حملہ کیا اور عورتوں کو قیدی بنالیا پس وہ اسلام کی پہلی خواتین تھیں جنہیں قیدی بنایا گیا۔


علامہ ابن عبدالبر نے مزید لکھا ہے:

أبي الرباب وصاحب له أنهما سمعا أبا ذر رضي الله عنه يدعو و يتعوذ في صلاة صلاها أطال قيامها وركوعها وسجودها قال فسألناه مم تعوذت وفيم دعوت فقال تعوذت بالله من يوم البلاء ويوم العورة فقلنا وما ذاك قال أما يوم البلاء فتلتقي فتيان من المسلمين فيقتل بعضهم بعضاً‏.‏ وأما يوم العورة فإن نساء من المسلمات ليسبين فيكشف عن سوقهن فأيتهن كانت أعظم ساقاً اشتريت على عظم ساقها فدعوت الله ألا يدركني هذا الزمان ولعلكما تدركانه قال فقتل عثمان ثم أرسل معاوية بسر بن أرطاة إلى اليمن فسبى نساء مسلمات فأقمن في السوق‏.‏

ابی الرباب اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت ابو ذر (رض) کو نماز میں پناہ طلب کرتے اور دعائیں کرتے سنا اور وہ نماز میں اک طویل وقت رکوع و سجود میں گزا ر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو ذر سے دریافت کیا کہ آپ کس سے پناہ طلب کررہے ہیں اور کس بات کی دعائیں مانگ رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں اللہ سے یوم البلاء اور یوم العورہ سے پناہ مانگ رہا ہوں۔ ہم نے پوچھا یہ کونسے ایام ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یوم البلاء وہ دن ہے جس دن مسلمان نوجوان آپس میں لڑپڑینگے اور ایک دوسرے کو قتل کردینگے۔ یوم العورہ وہ دن ہے جس دن مسلمان عورتوں کو غلام بنالیا جائےگا اور ان کی ٹانگیں عیاں کردی جایئگیں اور ان میں سے بہتر ٹانگ رکھنے والی ذیادہ دام پر خریدی جائنگی۔

راوی پر کہتا ہے کہ پھر عثمان کا قتل ہوگیا پھر معاویہ نے بسر بن ارطات کو یمن بھیجا اور مسلمان عورتیں کو غلام بنا لیا گیا اور انہیں غلام کے طور پر بازار میں لایا گیا۔


چونکہ معاویہ کی ماں ھندہ زمانہ جاہلیت میں مشہور زانیہ رہ چکی تھی غالبا ْ اس وجہ سے معاویہ کو ایک مومنہ کا مقام کا اندازہ ہوا ہی نہیں اور ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔

سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 409 میں امام ذھبی کا بسر بن ارطات کے متعلق کہنا ہے:

ابن یونس نے کہا ہے کہ بسر صحابی تھا اور اس نے مصر کی فتح میں حصہ لیا تھا اور اس کا مصر میں ایک گھر اور سرائے بھی تھا۔ اس نے معاویہ کے لئے حجاز اور یمن میں حکمرانی کی۔ اس نے بہت سے بری حرکات کیں اور اپنی زندگی کے آخر میں سے مرض لاحق ہوگیا تھا۔۔۔۔اس نے یمن میں مسلمان عورتوں کو غلام بنا لیا اور انہیں بیچنے کی غرض سے بازار لایا۔

یہ ہیں صحابہ ِکرام کی حاصل کردہ وہ فتوحات جن کے چرچے ہمارے مخالفین کی زبانوں پر ہمیشہ رہتے ہیں اور اسی طرح کی فتوحات کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ صحابہ کی توہین نہ کی جائے کیونکہ انہوں نے تو بہت معرکے سر کئے ہیں۔ اگر مسلمان عورتوں کے ساتھ یہ سلوک کر کے فتوحات حاصل کرنے والوں کی ہمارے مخالفین کے ہاں عزت ہے تو اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں اور ایسے لوگوں میں شامل ہونے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے اوپر ایسے لوگوں کی مذمت کرنے کی وجہ سے کفر کے فتوے لگوالیں!


قرآن شریف میں مومن کو قتل کرنے کی سزا


اللہ تعالیٰ اپنی لاریب کتاب میں ایک مومن کو قتل کرنے کی سزا سناتا ہے:

اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے
سورۃ النساء، آیت 93

جب ایک مومن کو قتل کرنے کی سزا ایسی سخت ہے تو معاویہ نے تو معصوم لوگوں کا قتل ِعام کیا ہے!

No comments:

Post a Comment